سوشل ڈسٹیسنگ یا ڈسگسٹنگ ؟
تحریر: منصوراحمد
دنیابھرمیں کوروناوائرس کا خوف طاری ۔۔۔ایک دوسرے سے
دور رہو ۔۔ہاتھ بالکل نہ ملاؤ ورنہ کورونا ہوجائے گا ۔۔۔ایک وقت تھا جب ہم کہتے ہیں
اس پیار سے میری طرف نہ دیکھو پیار ہوجائے
گا پھر کورونا آگیا ۔۔پیار نفرت میں بدل گیا ایک دوسرے سےہاتھ ملانے والے دور دور سے
اشارے میں ہی عافیت سمجھنے لگے ۔۔دنیا بھر کی طرح پاکستان کی حکومت نے بھی لاک ڈاؤن
کے آپشن کواپنایا ۔۔۔ایک دوسرے سے دور کیا ۔۔اسکول بند کردئیے ۔۔اجتماعات پر پابندی
لگادی ۔۔۔سماجی دوری یعنی سوشل ڈسٹیسنگ کی اصطلاح کا استعمال ہونا شروع ہوگیا ۔۔حفاظتی
اقدامات کے اشتہارات چلنے لگے ،لوگوں کی دکانیں چمکنے لگیں ۔۔کاروبار بند ہوگئے لیکن
کچھ کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے ۔۔۔ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال بڑھ گیا
۔۔سماجی دوری کی اصطلاح نے شہرت کی بلندیوں پر خوب جھنڈے گاڑے ۔۔لیکن اپنے ساتھ کئی
سوال بھی کھڑے کردئیے ۔۔۔کیا سماجی دوری پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہوسکتی ہے
۔۔جس ملک میں دوکمروں کے گھروں میں آٹھ آٹھ دس دس لوگ رہتے ہوں وہاں سوشل ڈسٹینسنگ
ہوسکتی ہے؟۔۔۔کیا ازدواجی زندگی میں دوری اختیار کی جاسکتی ہے۔۔۔اس طرح کے کئی اور
سوالات ہیں جو تحریر نہیں کرسکتا سمجھنے والے
سمجھ گئے ہوں گے ۔
کیا ہمارے ملک کی
عوام سماجی دوری اپنائے گی؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جب
شدید طوفان کی پیشگوئی کی گئی تو سمندر پر پکنک منانے پہنچ گئے کہ سمندری طوفان
کیسا ہوتا ہے۔۔ہم ایسی قوم ہیں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تو آدھی عوام صرف یہ دیکھنے
باہر نکل پڑی کہ یہ لاک ڈاؤن ہوتا کیسا ہے؟ خیر اس قوم کا کیا کہنا اس پر ان کو پابند
کرنا کسی طور بھی ناممکن ہے۔
ٹھیک ہے عالمی وبا
ہے جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہوا ہے ۔توکیا اس مطلب ہے ایک دوسرے سے دور ہوجائیں ؟؟ ایک ساتھ چائے
بھی نہ پیئے ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔یہ سوشل ڈسٹینسنگ نہیں ڈسگسٹنگ ہے ۔۔چلیں ایک مثال دیتا ہوں ۔۔میں رات گئے آفس
سے گھر جاتا ہوں ۔۔پورے گھر میں اندھیرا ہوتا ہے ۔سب سورہے ہوتے ہیں لیکن میری چار
سال کی بیٹی اندھیرے میں صرف میرے انتظار میں جاگ رہی ہوتی ہے ۔۔کیا میں اس کو خود
سے دور کرسکتا ہوں ۔۔نہیں نا ۔۔ہاں احتیاطی
تدابیر کو اپناتے ہوئے اپنی بیٹی کو اٹھاتا ہوں پھر اپنے ساتھ بستر پر لے جاتا ہوں
۔۔کیونکہ ایک بیٹی ہے تو لاڈلی بھی ہے وہ سوتی بھی میرے ساتھ ہے کیا اس کو بولوں میرے
ساتھ مت سویا کرو؟؟مجھ سے دور رہو کیا میری بیٹی کا ننھا سا ذہن اس بات کو تسلیم کرلے
گا ؟ ہرگز نہیں ۔۔میڈیا پر کورونا کابہت شور ہوا اس ہی دوران مجھے نزلہ ہوگیا ۔۔تو احتیاط کرتے ہوئے میں دوسرے
کمرے میں سونے چلا گیا رات کو واش روم جانے کیلئے اٹھا تو دیکھا اس کمرے کے دروازے
پر میری بیٹی سو رہی ہے کیا کروں ۔۔ہمارا وہ معاشرہ نہیں ہے کہ بچہ پیدا ہوا تو اس
کو الگ کمرے میں رکھنا شروع کردیا ۔۔ہمارے معاشرے میں سب لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں ۔۔بچوں
کو الگ نہیں کیا جاتا ۔۔۔
مغربی ممالک میں
شاید سوشل ڈسٹینسنگ کامیاب ہوجائے اس کی ایک وجہ وہاں کا ماحول بھی ہے پھر وہاں سب
کے ہی الگ الگ کمرے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ شاید ممکن نہیں ۔۔جس ملک میں کھانے
پینے کے لالے پڑے ہوں اس ملک میں مکمل لاک ڈاؤن ۔۔کاروبار بند ،لوگ کورونا سےمریں نہ مریں
بھوک اور افلاس سے ضرور مر جائیں گے ۔۔۔اس لیے بہتر ہے وہ فیصلے کیے جائیں جو
اس ملک کے عوام کے مفاد میں ہوں ۔۔اللہ سب کو اس بیماری سے محفوظ فرمائیں ۔۔۔باقی رہے
نام اللہ کا۔
اس تحریر کے مصنف منصور احمد ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ منصور احمد مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے کے لیے خبر کہانی کو ای میل کیجیے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment