تمہیں معلوم ہے بیٹا کس طرح جوان ہوتا ہے؟
کمبخت انسان کس طرح تم نے میرے جوان بیٹے کا خون زمین پر بہایا ہے؟ آنکھ میں آنسو نہیں تھے، دل کی دھڑکن بہت تیز تھی اور خاتون خود سے قد آور بیٹے کی آخری سانسوں کو گنتے ہوئے ایسی سواری کا انتظار کررہی تھی جو کہ نئی زندگی کی امید بن کر آئے اور اس کے لخت جگر کو ایک بار پھر اپنی ماں کا ہاتھ تھام کر بولے ماں گھر چلو۔
ان الفاظ کو سننے کیلئے ماں کا کلیجہ پھٹا جارہا تھا، شاید وہ اب یہ آواز کبھی نہ سن پاتی اس لئے امید کی آخری کرن کی طرف اس کی انکھیں پتھرا گئی تھیں۔
اچانک سے ایک آواز سنائی دی، جسے سن کر ماں نے اپنے بیٹے کے ایسے جسم کو سمیٹا جو کہ کسی خاردار تاروں سے پھٹے کپڑے کی طرح تھا۔ جلدی کر بھائی دیکھ نہیں رہے کہ یہ کون ہے اور میں کیا چاہتی ہوں؟
ننگے سر اور پاؤں سے خاتون نے آسمان کی طرف دیکھا اور دعا کی اے باری تعالیٰ تو تو سب کی سنتا ہے، آج میری بھی سن لے، میں کیا چاہتی ہوں؟
فون کی گھنٹی بج رہی تھی جسے وہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی کہ اچانک قریب کھڑے ہوئے بچے نے کہا اماں بابا کی کال ہے بات کریں، جس پر خاتون نے بھراتی ہوئی آواز میں کہا اے زمین پر ہونے والے ظلم کا انصاف دینے والے آکر دیکھ آج تیرے اپنے خاندان پر کیا بیتی ہے، آج اس کھلے آسمان کے نیچے میں کس کو مدد کے لئے پکاروں؟
شوہر کو اس آواز سے شاید ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوپایا تھا کہ باغ کا ایک پھول کس طرح مرجھارہا ہے اور شاید اس کے پہنچنے تک وہ سوکھ بھی جائے، بہرحال حوصلہ رکھیں میں آرہا ہوں کئی سو کلو میٹر کا سفر کرکے جب شوہر گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ چشمہ اب سوکھ گیا ہے اور اب شاید کبھی ہرا نہ ہوپائے گا۔
دونوں ایک دوسرے کو بے بسی کی تصویر بن کر ایسے دیکھ رہے تھے اور شاید کچھ کہتے ہوئے بھی کہہ نہیں پارہے تھے اور کئی ٹن مٹی کا وہ گھر ان کی نظروں کے سامنے تھا جہاں وہ کبھی کبھار صرف اس لئے جائیں گے کہ یہ ہم دونوں کے پیار کی نشانی تھی اور دوسری طرف وہ رسہ تھا جو کہ روزآنہ 2 کلو مکھن کھاکر صرف اس انتظار میں رہتا کہ کون گنہگار اس کی گرفت میں آئے گا تاکہ اس کو گلے سے دبوچ کر اپنی ذمے داری کو پورا کردے۔
یہ کہانی ایک ایسے انسان کی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں جرم کرنے والوں کی سزا اور بے گناہوں کو انصاف دینے کی کرسی پر بیٹھے اور اس وقت کراچی کے ضلع شرقی کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خالد حسین شاہانی کے خاندان کی ہے جن کا 19سالہ بیٹا عارف حسین عرف کاشف جو کہ 19فروری 2014بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اپنے دیگر چھوٹے بہن بھائیوں اور والدہ کے ساتھ ایک دعوت پر والد کے ہم منصب سکندر لاشاری کے گھر سے واپس آرہا تھا کہ اسے جسم کے ہر حصے پر گولیاں برسا کر بے دردی سے قاتلوں نے اپنا راستہ اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جب تک اسپتال میں موجود ڈاکٹر نے عاقب کے اس دنیا سے گزر جانے کی تصدیق نہیں کی۔
عام شارع پر ایک نوجوان کا قتل ہونا قانون کے محافظوں نے اسے شاید دہشت گردوں کی واردات سمجھ لیا تھا، شاید انہیں اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ بعض دہشت گردی کی وارداتیں اس طرح سے بھی جنم لے چکی ہیں جیسے کہ پیر کو دودھ میں زہر اور صاحبہ کو تیر کمان سے قتل کیا گیا یہی مثال اس وقت بھی دی گئی کہ قاتل بھی اسی گھر میں موجود تھے جہاں مقتول کو آخری بار کھانے میں زہر دیا گیا تھا اصل میں کھانے کی دعوت بھی اسی سازش کے تحت دی گئی تھی کہ شاید شک نہ ہو کہ قاتل کون ہے اور وہ شاید قانون قدرت کو بھول گئے تھے۔
مقتول کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے قاتل کی بیٹی سے محبت کا اظہار کیا تھا جسے اس نے قبول کرلیا جو کہ قاتل کی نظر میں ایک ناپسندیدہ عمل تھا قتل کی اس واردات کے بعد بہت شک وشبہات نے جنم لیا اور اب اس پر باضابطہ تحقیقات کا آغاز بھی ہوچکا تھا جس میں مقتول کے والد کی طرف سے انصاف کے لئے ملک کی ہر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اس لئے کہ دنیا میں اس سے بڑی اور کیا اذیت ہوگی کہ جوان بیٹے کا جنازہ کندھے پر اٹھایا جائے۔
قاتل بہت شاطر تھا مگر شاید وہ یہ بھول گیا تھا کہ اس محبت کی کہانی کا اہم کردار خود اس اس کے گھر میں موجود ہے ہاں میں بات کررہا ہوں اس کی بیٹی کی جس نے دوسرے ہی روز بذریعہ ٹیلی فون اس گتھی کو سلجھانے میں اہم ترین کردار ادا کیا اور آہستہ آہستہ یہ الجھی ہوئی گتھی سلجھنے کی طرف چل پڑی۔
پولیس کو اس کے شواہد بھی ملنا شروع ہو گئے، یہ سچ ہے کہ اس میں کئی روز لگے اور آخر کار تفتیش کاروں نے شواہد کی بنیاد پر ملزم کو تلاش کرہی لیا جس کے بعد پولیس کی طرف سے بہت مشکل تھا کہ وہ ملزم کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لائیں چونکہ ملزم خود بھی ایک انصاف کی کرسی پر براجمان ہونے کے ساتھ سیاسی اثرورسوخ کا بھی حامل تھا اور شاید اس کی یہی خوش فہمی تھی کہ اس نے اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب کیا۔
تاہم ملزم کو پولیس نے مدعی مقدمہ جو کہ ملزم کا ہم منصب تھا مجبوراً گرفتار کرلیا اور اب چونکہ مکمل شواہد پولیس حاصل کرچکی تھی اور اسے ملزم کا اندازہ بھی ہوچکا تھا، ایف ای آر کے اندراج میں اضافہ کرنے کے لئے بھی مدعی مقدمہ کی طرف سے انصاف کے ہر دروازے کو کھٹکٹایا جارہا تھا کہ کوئی قانونی چارجوئی نہ کر سکے۔
آخرکار تفتیش اس مقام پر پہنچ گئی کہ مقدمے میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کا اضافہ کیا جائے۔ ملزم نے باربار ضمانت کی دررخواست بھی دائر کی جو کہ ان شواہد کی روشنی میں بے سود ثابت نہیں ہوتی اور اس طرح 6 سال کا طویل عرصہ گزر گیا مگر آخرکار تمام شواہد کی روشنی میں عدالت نے ملزم کو سزائے موت سنادی۔
اس کہانی کو لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی کو پسند کرنا اتنا بڑا جرم سمجھا جاتا ہے تو پھر یہ قانون کیوں نہیں بنا دیا جاتا کوئی کسی سے محبت کا اظہار نہ کرے؟ اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر دو پیار کرنےوالوں کو اتنی بڑی سزا کیوں دی گئی؟
ابھی یہ پھول تو پورا کھلا بھی نہیں تھا کہ اسے مسل دیا گیا۔ مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے اور اس دوشیزہ کی زندگی پر جو داغ لگائے گئے اسے اب کون دھوئے گا؟ ان ماں باپ کو آخری سانس تک تسلی کون دے گا کہ آپکے بیٹے کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا جس کی سزا اس کی جان لے کر دی گئی اور اب ان تمام حقائق کو پس پردہ رکھ کر اگر یہ سوچ بھی لیا جائے کہ اگر مقتول کا باپ خود منصف نہ ہوتا تو کیا اسے کبھی انصاف مل سکتا تھا؟ ہرگز نہیں ۔اس کی ہمارے پاس لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔ ذرا سوچئے ۔ذرا سوچئے۔۔۔۔
Post a Comment