لاشوں کے سوداگر !

People are perturbed with Medico-legal departments in Pakistan

تحریر : شاہد انجم

ابھی کوئی بھی رونا دھونا نہیں کرے گا اور نہ کسی کو کوئی اطلاع کرے گا کیا ہوا کیسے ہوا کب ہوا کیوں ہوا۔   اس کا فیصلہ ہم کریں گے جس کے بعد آپ کوئی دوسرا قدم اٹھاسکیں گے اور ابھی کوئی بھی میرے پاس نہ آئے جب تک میں نہ کسی کو بلاؤں۔ متعلقہ افراد کی آنکھیں اشکبارتھیں اور صرف انتظار میں تھے کہ کب چوہدری صاحب کا حکم نامہ جاری ہو اور کب وہ اپنے پیارے کو ایک نظر دیکھ سکیں۔ 

ایسا کب ہوگا یہ وقت مقرر نہیں، خواتین بچے سب ایک ہی قطار میں کھڑے تھے کہ قاصد جو کہ کوسوں دور سے صرف یہ پیغام لے کر آیا تھا کہ گاؤں کے لوگ بہت پریشان ہیں آپ لوگوں کے بارے میں بار بار پوچھ رہے ہیں کہ ایسا کیا ہوگیا ہے جس کے باعث آپ لوگ اپنے گھر بھی واپس نہیں آرہے قاصد کی جواب میں صرف اتنا بتادیا گیا تھا کہ ایک حادثہ پیش آیا ہے اس کے بعد معلوم نہیں، اب ہم اس وقت چوہدری صاحب کے گھر پر موجود ہیں اور ان کے محافظ ہمارے اطراف میں ہیں، ابھی ہم یہ نہیں بتا سکتے ہم لوگ کب تک گھر لوٹیں گے۔

قاصد یہ بات سن کر واپس لوٹ گیا اور جو لوگ وہاں موجود تھے وہ اگلے حکم تک وہیں موجود رہے۔ کئی گھنٹے گذرنے کے بعد چوہدری صاحب کے ایک گماشتے نے آکر آواز دی کہ اس میت کے ساتھ کون آیا ہے اور آپ لوگوں کا سربراہ کون ہے جلد از جلد حاضر ہو جس پر ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے کہا میں ہوں، کیا نام ہے آپ کا، حکم دین کہتے ہیں مجھے اور میں مرنے والے کا چھوٹا بھائی ہوں۔ اچھا چلو میرے ساتھ کچھ دیر کے بعد چوہدری صاحب کے گماشتے نے کہا کہ آپ اس ٹونٹی سے ہاتھ منہ دھولیں اس لئے آپ کے جسم سے پسینے کی بوآرہی ہے جو کہ چوہدری صاحب کو پسند نہیں ہے ۔حکم دین جلدی جلدی ہاتھ منہ دھو کر واپس آیا اور کہا چلو اب تو چوہدری صاحب سے ملاقات کروادو۔ اچھا میں معلوم کرتا ہوں گماشتے نے جواب دیا اور کمرے میں داخل ہوگیا۔

حکم دین بے بسی کے عالم میں وہاں کھڑا رہا چند منٹ گزرنے کے بعد جب گماشتہ واپس آیا تو اس نے کہا کہ چوہدری صاحب کی آنکھ لگ گئی ہے اب ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتے ہیں انکے کمرے میں موجود شخص کو آ پ کے بارے میں بتادیا ہے وہ بیدار ہونے کے بعد چوہدری صاحب کو بتادیں گے پھر آپکو بلا لیا جائے گا ۔

حکم دین جو کہ بھوکا پیاسا تھا وہیں زمین پربیٹھ گیا اور کئی گھنٹے گزرنے کے بعدآواز آئی کہ حکم دین حاضر ہو جس پر حکم دین نے جوتا اتارا اور کمرے میں داخل ہوگیا جہاں چوہدری صاحب ایک قیمتی پلنگ پر براجمان تھے۔ پوچھا کیا بات ہے، عرض کی چوہدری صاحب میں اپنے بڑے بھائی اور دیگر قریبی افراد کے ساتھ کسی کام کے سلسلے میں جارہا تھا اور راستے میں ایک حادثہ پیش آگیا جس کے باعث میرے بڑے بھائی انتقال کرگئے، اب ان کی میت لے کر ہم واپس گھر جانا چاہتے تھے تاکہ ان کی تدفین کا بندوبست کیا جائے اور جب ہم آپ کے گاؤں کے قریب سے گزررہے تھے تو ہمیں چند افراد نے گھیرے میں لے کر کہا کہ آپ لوگ ایسے نہیں جاسکتے پہلے آپ کو چوہدری صاحب سے ملنا پڑے گا اس لئے حاضر ہوا ہوں چوہدری صاحب نے حکم دین کی بات سنی اور کہا کہ آپ کو میری رعایاسے گزرنے کی اجازت کس نے دی تھی اور اگر آپ کے پاس اجازت نہیں تھی تو پھر  آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا ۔میں اپنے منشی کو بتادیتا ہوں آپ  اس سے مل لیں اور جو جرمانے کی رقم ہے وہ بتائے گا، ادا کرکے آپ میت لے جاسکتے ہیں۔

چوہدری صاحب کی یہ بات سن کر حکم دین پریشان ہوگیا اور اس نے عرض کی کہ ہم لوگ تو بہت غریب ہیں اس لئے جرمانے کی رقم کیسے ادا کرسکتے ہیں، چوہدری صاحب نے حکم دین کی بات سنی تو ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور غصے میں کہنے لگے جب رقم کا بندوبست ہو جائے تو میت لینے آجانا اور ہاں دوسری بات میں منشی سے کہہ دیتا ہوں اگر آپ کے پاس رقم موجود نہیں  تو وہ آپ سے کچھ رعایت کردے۔

حکم دین نے چوہدری صاحب کی بات سنی اور منشی کی طرف چل دیا اور کچھ دیر بعد رقم ادا کرکے بھائی کی میت لے کر رخصت ہو گیا۔ وہ کہتا جارہا تھا کہ کیا یہ جنگل کا قانون نہیں کہ جہاں انسان کی وفات کے بعد بھی اسے رقم کی ادائیگی کرکے دفن ہونا پڑتا ہے۔  

حکم دین کے ان خیالات کو دیکھتے ہوئے مجھے روز مرہ کی زندگی میں ہونے والے حادثات اور واقعات میں جاں بحق افراد کا خیال آیا کہ ان کی لاشیں جب قانونی چارہ جوئی اور وجہ موت معلوم کرنے کے لئے سرکاری اسپتالوں کے شعبہ میڈ کیو لیگل کے پاس لائی جاتی ہیں تو وہاں کا ماحول بھی اس سے کوئی زیادہ منفرد نہیں ہوتا ۔ میڈیکو لیگل میں تعینات ڈاکٹر اور دیگر عملہ میت کے ورثا سے اس طرح کے سوالات کرتا ہے کہ ان سے رقم وصول کی جاسکے۔ انہیں اگر لاشوں کا سودا گر کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔

سرکاری اسپتالوں میں موجود اس شعبے کے ڈاکٹر کئی کئی برسوں سے سرکاری اثرو رسوخ استعمال کرکے تعیناتی حاصل کرنے میں اور ہر آنے والی لاشوں کی قیمت وصول کرنے کے ساتھ زخمیوں کے زخم پر مرہم رکھنے کی بھی قیمت وصول کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اعلیٰ احکام سے  متعدد بار کی جانیوالی شکایات بھی بے سود ثابت ثابت ہوتی ہیں اس لئے کہ یہ بلواسطہ یا بلا واسطہ کسی نہ کسی سیاسی چھتری کے سائے میں ہوتے ہیں ۔ کیا ارباب اختیار کو انسانیت کی تذلیل ہونے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے ۔ ذرا سوچئے۔





اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.