حاکم نہیں محافظ !
کمرے میں مدھم روشنی تھی گھر کے ہر فرد کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی ایک دوسرے سے کانا پھوسی کئی روز سے جاری تھی۔ گھر میں بڑا دسترخوان بچھ رہا تھا اور نہ ہی کہیں دولت کا آزادانہ استعمال نظر آرہا تھا۔ معجزہ کیا تھا گھر کا مالک غریب عالم جوکہ سات بیٹوں کا باپ تھا کئی روز سے اپنی زندگی کے آخری دن بیماری سے لڑتے ہوئے گزارنے پر مجبور تھا۔
اچانک ایک روز اس نے اپنے بڑے بیٹے کو بلایا اور ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے اسے اپنی زندگی کا قصہ سناتے ہوئے کہا کہ دیکھو بیٹا میں نے زندگی میں کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ میں کسی کے ساتھ زیادتی کررہا ہوں اور میرے ہاتھوں سے کبھی کسی کو فائدہ ملنے سے متعلق بھی کوئی خبر نہیں ملی۔
میرے تمام رشتےدار، عزیزاوقارب، دوست اور عام لوگ بھی میرے سامنے تو مجھے برا بھلا نہیں کہتے تھے پر ان کے چہروں سے مجھے یہ اندازہ ہوتا رہا ہے کہ مجھے دی جانے والی عزت عارضی ہے اور یہ لوگ میرے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے مجھ سے بے حد نفرت کرتے ہیں میری وجہ سے معاشرے میں بہت ساری برائیاں پیدا ہوئی جنہیں میں برا نہیں سمجھتا تھا حالانکہ ہمارا معاشرہ ہمارا رہن سہن اسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں تھا۔
میں آج تمہیں کھل کر یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے زندہ انسان تو دور کی بات ہے مرنے والوں کی قیمت بھی وصول کی ہے مجھ پر یہ بہت بڑا بوجھ ہے اور شاید اسی وجہ سے مجھے نا تو ذہنی نا جسمانی اور نا روحانی سکون حاصل ہے۔ میں نے اپنی جوانی میں جو جو کچھ بھی ایسا کیا ہے وہ اب ایک یاداشت کے طور پر جب میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو میرا جسم تو جسم، روح بھی کانپ جانتی ہے۔
بیٹا جو بات اب میں تمہیں کہنے جارہا ہوں اسے حکم نہیں بلکہ میری ایک التجاء سمجھنا اس لئے کہ مجھے اب لگ رہا ہے کے میرا وقت نزع قریب ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کے جب میری روح پرواز کرجائے اور مجھے منوں مٹی تلے چھوڑ کر واپس آؤ تو میرے کردار کا جو رنگ عوام کے دماغ پر چھایا ہوا ہے لوگ اسے بھول جائیں تاکہ میرا آخری سفر شاید کچھ آسان ہوجائے۔
کانپتی ہوئی آواز اور لرزتے ہوئے جسم سے جو الفاظ بیٹے کے کانوں تک پہنچے تھے اس پر اپنے باپ کو جواب دیتے ہوئے بیٹے نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ یہ کہ بابا آپ فکر نہ کریں اور آج تک آپ نے جو بھی کیا ہے ہمارے لئے ہی تو کیا ہے یہ دھن دولت گاڑیاں، زمین داری اور دیگر جو بھی املاک ہیں مجھے معلوم ہے آپ کو وراثت میں نہیں ملی تھی لیکن آج آپ کی وجہ سے اسکے مالک ہم لوگ ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ لمبی زندگی عطا کرے آپ صحت مند ہو جائیں اس کے لئے ہم دعاگو ہیں۔ باقی موت برحق ہے اور اگر آپ اس دنیائے فانی سے رخصت بھی ہوگئے تو میرا وعدہ ہے کہ میں اور میرے بھائی اس معاشرے میں ایسا کردار ادا کریں گے کہ لوگ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔
باپ بیٹے میں ہونے والی ملاقات آخرکار آخری ملاقات ثابت ہوئی والد کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد یہ چہ مگوئیاں شروع ہوچکی تھی اور لوگوں نے یہ کہنا بھی شروع کردیا تھا کہ غریب عالم ایک برا انسان تھا ۔بہت اچھا ہوا کہ اب وہ دنیا سے رخصت ہوگیا اور شاید معاشرے میں ہونے والی برائیوں میں کمی آجائے مگر عام لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ مرنے والے نے اپنے بچوں کو جو نصیحت کی ہے اس کا کیا نتیجہ آئے گا۔
چند روز بعد ہی غریب عالم کی جائز اور ناجائز دولت پر پلنے والے اس کے بیٹوں نے معاشرے میں جو برائیاں رہ گئیں تھیں بڑھاوا دیا، جو کام باپ نے ادھورے چھوڑے تھے انہیں پوراکیا جارہا تھا۔ برائیوں کے اس تسلسل کی وجہ سے اب معاشرے میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا تھا کہ غریب عالم بہت اچھا انسان تھا اب اس کے بیٹوں نے تو ہر حد ہی عبور کردی ہے ۔
غریب عالم کی یہ کہانی سن کر مجھے پولیس کا موجودہ نظام یاد آگیا ایک بین الاقوامی وباء کورونا کہ آنے کے بعد حکومت کی طرف سے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مختلف طریقہ کار اپنایا گیا۔ بار بار یہ احکامات جاری کئے گئے کہ کورونا سے بچنے کے لئے سماجی دوری پیدا کی جائے گھروں میں محفوظ رہا جائے کھانے پینے میں احتیاط برتیں اور خاص طور پر وہ لوگ جو ایسے ممالک میں جہاں کورونا کی وباء نے بڑی تعداد میں انسانی زندگیاں ختم کی ہیں واپس آنے پر انہیں آئسولیشن یا قرنطینہ میں رکھا جائے۔
تمام حفاظتی اقدامات کے ساتھ ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس اعلان کے بعد سندھ پولیس کی تو جیسے چاندی ہوگئی منشیات فروشوں قاتلوں دہشت گردوں جواء سٹہ گٹکا مافیا چھالیا کے تاجر اور دیگر مضرِ صحت اشیاء کی فروخت پر پابندی لگنے کے بعد پولیس جس طرح سے بھتہ وصول کرتی تھی اب وہ لاک ڈاؤن میں دکانوں کو وقت سے زیادہ دیر تر کھلا رکھنے پر بھی دودھ، ڈبل روٹی اور حلال اشیاء کےدکانداروں سے بھاری رقم وصول کررہی ہے۔
پولیس کے اس رویئے سے شہریوں پر بہت برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ دکاندار پولیس کو بھتہ دینے کے بعد اشیاء خریدنے والے گاہکوں سے من مانی قیمت وصول کررہے ہیں۔ ناکوں پر کھڑی پولیس کبھی بھی یہ حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کرتی کہ ہر آنے جانے والے انسان کے پیچھے کیا کہانی ہوتی ہے۔
کبھی کسی اعلی پولیس افسر نے یہ زحمت کی ہے کہ وہ ناکوں پر کھڑے ان پولیس کے جوانوں سے یہ سوال کریں کے تم اپنی ڈیوٹی کس طرح انجام دے رہے ہو بلکہ اعلی افسران کی طرف سے یہ پیغامات تو دیئے گئے کہ ہر موبائل آفیسر اور ڈیوٹی آفیسر کم از کم بارہ مقدمات درج کرکے اپنے گھر روانہ ہو۔ اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اعلی افسران کے احکامات کو کو ماتحت افسران کس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ سندھ پولیس یہ نعرہ ہمیشہ سے بلند کرتی آئی ہے کہ ہم عوام کے حاکم نہیں محافظ ہیں، کیا وہ اس نعرے پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے!
Post a Comment