کراچی پولیس کی تعداد بڑھائیں، کورونا سے بجائیں

Karachi policeCOVID-19 spreading in Karachi police ranks

تحریر : شاہد انجم

جاڑ ے کا موسم، سوکھے پتوں کی کچر کچر آواز اور دور تک کوئی تفریح گاہ تک میسر نہیں تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کبھی اس جگہ پر انسانوں کا بسیرا ہوا کرتا تھا مگر  اب وہ یہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر پھٹے بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا۔ دانتوں میں انگلی دبائے دور تک اس کی نظریں ایک مایوسی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہی تھیں۔ آخر ایسا کیوں تھا، مکڑی کے جالے سے بھرے ہوئے مکان کے باہر بیٹھے اسے زمیندار کی نظر پگ ڈنڈیوں سے آتے شخص پر پڑی، جس نے آتے ہی ایسا کیا کہ جواب میں منہ سے الفاظ بعد میں اور آنکھ سے آنسو پہلے جاری ہو گئے؟؟؟

 زمیندار نے پہلے ایک لمبی آہ بھری اور پھر پوچھا کہ تم  کون ہو؟ جو مجھ سے یہ سوال کررہے ہو؟؟؟ آج تک کسی نے بھی ہمارا یہ دکھ بانٹنا تو دور کی بات وجہ تک جاننے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے ہمیں اب ایسے الفاظ بھی بہت عجیب سے لگتے ہیں۔ اصرار کرنے پر آنے والے شخص نے بتایا کہ وہ بیرون ملک رہتا تھا اور اس کے والد کسی وقت میں ایک قریب قبیلے میں رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میرا وہاں آنا جانا رہا ہے اور اگر کبھی تم  وہاں جائو تو میرے قبیلے میں بھی ضرور جانا تاکہ تم کو اس مٹی کی خوشبو سے اندازہ ہوسکے کہ ہماری پیدائش کس جگہ ہوئی تھی۔

سوال سن کر چارپائی پر بیٹھے شخص نے کہا بیٹھ جاؤ، میں تم کو اس کی حقیقت بتاتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا؟ ہمارے آباؤ  اجداد نے جس زمانے میں آکر یہاں بسیرا کیا تھا اس وقت یہاں بہت کم علاقہ آباد تھا اور زمین کا بڑا حصہ بنجر تھا جس کی وجہ سے زمیندار اس زمین پر ہل چلا کر اپنا گزر بسر کررہے تھے، خاص کر جو نہری نظام تھا وہ بہت اچھا تھا جو زمین قابل کاشت تھی اس کے حصے میں آنے والے پانی کی مقدار اتنی تھی کہ فصل بہت اچھی ہوتی تھی اور زمین سیراب تھی مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا آبادی میں اضافہ ہونے لگا اور وہ زمین جو بنجر تھی اس پر لوگوں نے توجہ شروع کردی اور یوں وہ زمین بھی آباد ہونے لگی، جس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں آنے والی نہر سے پانی کی چوری بھی شروع ہوگئی جس پر جلد ہی لڑائی جھگڑے بھی شروع ہوگئے۔

 ان حالات میں مجھے اس بات پر بھی بہت افسوس تھا کہ سرکار کی طرف سے ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور معاملات جوں کے توں ہی چلتے رہے اور آخر کار ایک وقت ایسا آیا کہ آباد کی جانے والی زمین ایک بار پھر سے بنجر ہونے لگی۔ سرکار کو بار بار تحریری شکایات کی جاتی رہیں جو بے سود ثابت ہوئیں۔ بار بار پانی چوری اور پانی کی مقدار بڑھانے کے لئے بھی کہا جاتا رہا، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اب تمام حالات  تمہارے سامنے ہیں کہ اس علاقے میں آئے روز وبائی امراض بھی پھیلنے لگے ہیں جو کہ انسان تو کیا جانوروں اور فصلوں کو بھی تباہ کر رہے ہیں پر ہماری کوئی سنے والا نہیں۔

بہر حال چھوڑو اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اس علاقے میں بھوک اور افلاس ڈیرے نہ ڈال لے اور آنے والے وقت میں ہم دو وقت کی روٹی کو بھی ترس جائیں جبکہ دیگر علاقوں میں جو نہری نظام رائج کیا گیا تھا وہاں آج بھی خوشحالی ہے اور وبائی امراض بھی بہت کم پھیلتے ہیں۔

زمیندار کی یہ کہانی سن کر مجھے موجودہ سندھ اور خاص طور پر کراچی پولیس یاد آگئی جہاں کرونا جیسی وبا کی زد میں آکر سیکڑوں پولیس اہلکار  اسپتال پہنچ چکے ہیں اور دیگر کے ٹیسٹ بھی کئے جارہے ہیں۔ اعلیٰ افسران بھی اس وبا سے بہت پریشان ہیں اور بعض متاثر ہوکر آئسولیشن میں ہیں جس کی سامنے آنے والی سب سے بڑی وجہ پولیس کی انتہائی کم تعداد بتائی جارہی ہے۔

کراچی پولیس کی اس وقت مکمل نفری جس میں ٹریفک پولیس بھی شامل ہے تقریباً 44ہزار ہے اور اگر کراچی کی آباد ی کو دیکھا جائے تو تقریباً ڈھائی کروڑ سے بڑھ چکی ہے۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ان کے پاس موجود نفری میں کئی ہزار جوان اس وقت سیاسی رہنماؤں اور وی آئی پی سیکیورٹی پر مامور ہیں اور محتاط اندازے کے مطابق صرف 25ہزار پولیس اہلکار اس وقت شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کیلئے دستیاب ہیں۔

نفری کی کمی کے باعث  پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی 12 سے15 گھنٹے تک ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ سماجی دوریاں رکھنے سے قاصر ہیں یوں ہماری حفاظت اور ہمیں اس وباء سے بچاؤ کے طریقے بتانے والے خود اس وباء کا شکار ہورہے ہیں۔ کراچی پولیس کا ہر اہلکار تقریبا ً 750 افراد کی جان ومال کی حفاظت پر متعین ہے اور اگر اس کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جائے تو نیو یارک کی85 لاکھ آبادی کے لیے پولیس کی تعداد 55ہزار یعنی سات شہریوں کے لئے ایک پولیس اہلکار ہے۔ لندن کی آبادی 90لاکھ پولیس اہلکار 44ہزار، یوں چار شہریوں پر ایک پولیس اہلکار ہے، نئی دہلی میں 224شہریوں کیلئے ایک پولیس اہلکار تعینات ہے۔

 حکومت سندھ کو شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پولیس کی نفری کم ہونے کے بارے میں بار بار مطلع کیا جارہا ہے مگر کوئی توجہ نہیں دی جارہی جبکہ اس وقت بھی 15 ہزار پولیس اہلکاروں کی اسامیاں خالی ہیں اور اگر ان اسامیوں کو ہی پُر کرلیا جائے اور پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی کے اوقات کار کم کر دئیے جائیں تو سماجی دوری کسی حد تک ممکن ہوسکتی اور شاید آج ہماری حفاظت کرنے والے خود اس وباء میں مبتلا نہ ہوتے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اب بھی وقت ہے اس پر غور کرے تاکہ آئندہ اس طرح کے حالات پیدا نہ ہوں۔ ارباب اختیاراس بارے میں ذرا سوچیں!




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.