ٹوپی نہیں پہن سکتا۔۔۔
تحریر: عبید شاہ
معاشی بحران اور
نئے جنگل کے نعرے کے باعث لکڑ بھگے جو کہ تعداد میں زیادہ تھے جنگل پر قابض ہوگئےپھر
لکڑ بھگوں نےجنگل کو نمبر ون اور کامیاب بنانے
کا دعوی کیا تو اُسے بادشاہ بنادیا گیا۔ لکڑ بھگے نے بادشاہ بنتے ہی آرڈیننس نکالا
کے اب ہر بڑا جانور چھوٹے جانور کی غلطی پر اسے فوری سزا دے سکتا ہے۔
یہ سننا تھا کے
بندر کو مزے آگئے۔ بندر نے ایک دن خرگوش کو روکا اور زور دار تھپڑ رسید کردیا خرگوش
نے روہانسی صورت بناکر پوچھا مجھے کیوں مارا تو بندر بولا تو نے ٹوپی کیوں نہیں پہنی
خرگوش نے کہا سر جی میرے کان بڑے ہیں ٹوپی نہیں پہن سکتا ۔ بندر نے کہا اوکے جاؤ چند
دن بعد پھر بندر نےخرگوش کو روکا اور تھپڑ لگا کے پوچھا ٹوپی کیوں نہیں پہنی خرگوش
بولا سر آپکو بتایا تو تھا کہ کان لمبے ہیں ٹوپی نہیں پہن سکتا گر جاتی ہے بندر بولا
ٹھیک ہے ٹھیک ہے رو مت جاؤ یہاں سے۔
اسکے بعد تو بندر
آتے جاتے خرگوش کو تھپڑ لگاتا اور یہی پوچھتا ٹوپی کیوں نہیں پہنی اور بے چارے خرگوش
کا یہی جواب ہوتا کان لمبے ہیں سر جی ٹوپی گر جاتی ہے بے چارہ خرگوش روز چانٹے کھاتا
اور یہی جواب دیتا ایک دن خرگوش کی بس ہوگئی وہ
لکڑ بھگےکے پاس گیا اور کہا جناب آپکے جاری کردہ آرڈیننس کا بندر ناجائز فائدہ
اُٹھارہا ہے مجھے روز تھپڑ مارتا ہے اور کہتا ہے ٹوپی کیوں نہیں پہنی لکڑ بھگا بولا
صحیح تو کر رہا ہے تم ننگے سر کیوں گھومتے ہو خرگوش بولا جناب اعلی ہزار بار بتا چکا
ہوں کان بڑے ہیں ٹوپی نہیں پہن سکتا ٹوپی گر جاتی ہے۔
لکڑ بھگا بولا اچھا ٹھیک ہے میں بندر کو سمجھا دونگا
وہ اب تمہیں تھپڑ نہیں مارے گا۔ خرگوش خوشی خوشی روانہ ہوگیا کہ اب بندر اسے آتے جاتے
تھپڑ نہیں مارے گا۔ لکڑ بھگے نے بندر کو آفس طلب کیا اور کہا یہ آرڈیننس اس لیئے نکالا
ہے تاکہ بڑے جانور اپنی پارٹی میں رہیں لیکن تمہاراخرگوش سے کیا مسئلہ ہے بندر نے کہا
جناب وہ ٹوپی نہیں پہنتا بادشاہ بولا اختیارات کے استعمال کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے میں سمجھ سکتا ہوں لیکن تم یہ اختیار منطق سے استعمال
کرو تو تمہاری شکایت مجھ تک نہیں آئیگی۔
بندر بولا وہ کیسے
سر جی لکڑ بھگا بولا دیکھو تم خرگوش سے کہو
سموسے لیکر آؤ، وہ سموسہ لے آئے اور چٹنی نہ لائے تو تھپڑ مارو کہ چٹنی کیوں
نہیں لا یا۔ اگر چٹنی بھی لے آئے تو تھپڑ مارو کے ہری چٹنی کیوں لایا لال کیوں نہیں
لایا اسی طرح ہم بڑے جانور ان چھوٹے خرگوشوں پر اپنا رعب رکھ سکیں گے اور سزا کے خوف
سے بغاوت بھی نہیں کرینگے۔ یہ سن کر بندر بولا سمجھ گیا سر جی اب ایسا ہی ہوگا۔
چند دن بعد بندر
نے خرگوش کو روکا اور کہا جا اوئے سموسہ لے کر آ خرگوش خوشی سے بھاگتا ہوا سموسہ لینے
دوڑا خوشی اس بات کی چلو شکایت کا کچھ تو اثر ہوا خرگوش نے سموسے لاکر بندر کے حوالے
کیئے تو بندر نے پوچھا چٹنی لایا ہے خرگوش بولا جی سر جی لال چٹنی ہری چٹنی کیچپ اور
رائتہ سب لایا ہوں، یہ سننا تھا کے بندر نے زور دار تھپڑ خرگوش کو جڑ دیا۔ خرگوش روتے
ہوئے بولا اب کیوں مارا تو بندر بولا چٹنی چھوڑ یہ بتا ٹوپی کیوں نہیں پہنی۔
تو بھائیوں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چند ادارے آپ کی آواز دبانے کے لیئے ایسےلکڑ بھگا آرڈیننس نکالتے رہیں گے اور بندر اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپکی نوکریوں پر تھپڑ رسید کرتے رہیں گے کیونکہ آپ ٹوپی نہیں پہنتے وہ ٹوپی واجبات کی ادائیگی نہ کرنے، تنخواہ بروقت نہ دینے، جبری برطرفی اور فیلڈ میں سہولیات کے فقدان کی نشاندہی کرتے رہنا ہوسکتی ہے، یہ ٹوپی پہننے سے آپ انکاری ہونگے تو نوکری سے جبری فراغت کا تھپڑ آپ کو پڑتا رہیگا اور آپ بندر اور لکڑ بھگے کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے کیونکہ وہ آپکے قبیلے کے نہیں اور آپ کے قبیلے میں تو سب کے کان بڑے ہیں۔
اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ
بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی
رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بہت جلد کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کا اعلان کردیا جائے گا۔ ایڈمنسٹریٹر کے لیے دیگر ناموں کے ساتھ مرتضیٰ وہاب کا نام لیا جارہا ہے جو پپلز پارٹی کی رہنمامرحومہ فوزیہ وہاب کے بیٹے ہیں اور پارٹی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںhttp://www.enews.pk/sports/