اپنے حصہ کی سولی

 Everyone cannot write


تحریر: سہیل انصاری

ہم نے لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے،،، من حیث القوم تو یہ بات درست نہیں ایک سے ایک لکھاری موجود ہے جس پر موضوع پر جیسا چاہیں نقد لکھوالیں۔ جو چاہیں جس کے نام سے جیسا چاہے لکھوالیں، یقین نہیں آتا تو ہم سے لکھوالیں۔ نقد شرط ہے۔ اور ہمارا نام صیغہ راز میں رہے۔

کچھ لکھنے والے ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ طاقتور حلقوں کی حمایت میں لکھتے ہیں اور یہ لکھنا اس بات کا مظہر ہے کہ ایسے ہی لکھنا چاہئے اور یہ ہی لکھنے کا درست طریقہ ہے۔

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو طاقتوروں کے خلاف لکھتے ہیں پھر جیل بھی جاتے ہیں، جوتے پڑتے ہیں بچے رل جاتے ہیں بیویاں ماری ماری پھرتی ہیں، یہ لکھنے کا طریقہ ہمیشہ مطعون رہا ہے، اور ایسا لکھنے سے کبھی پیٹ نہیں بھرتا اور اکثر کہا جاتا ہے کہ لکھنے کا شوق بھرے پیٹ کی باتیں ہیں خالی پیٹ انسان کو فلسفہ تو کیا عشق بھی نہیں سوجھتا لیکن یہ پتہ نہیں کس ڈھیٹ ہڈی کے بنے ہوتے ہیں اور لکھتے ہی چلے جاتے ہیں، وہ اور بات ہے ان کی اولاد اپنے عظیم لکھنے والے اجداد کے نام کو اعزاز سمجھتی ہے بس مالی پریشانیوں میں مبتلا رہتی ہے۔

کچھ لوگ ہوتے ہیں جنہیں حق کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بعض اداروں میں ان کی پالیسی کے مطابق لکھتے اور بولتے ہیں کیونکہ انہیں تنخواہ ہی اسی بات کی ملتی ہے۔

ہم نے کبھی نہیں لکھا اور اس کے لکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسی بات سے ڈرتے رہے کہ کہیں ہمارا لکھا ہوا کسی کو برا نہ لگ جائے اور وہ ہمارا پتہ پوچھتا ہوا دفتر نہ آجائے۔ پھر کیا ہوگا دفتر والے سر سے ہاتھ اٹھالیں، وہ جو معاشرے میں ہمارے نام کے ساتھ صحافی ہونے کا لاحقہ ہے وہ بھی کہیں نہ چلا جائے اور چونکہ ہم تو بس ویسے ہی نوکری کررہے ہیں اور طاقت ور حلقوں میں ہماری کوئی شناسائی کوئی گزر نہیں تو ہمیں بچانے کون آئے گا ، (نام صیغہ راز میں ہے) ہمارے عزیز بے حد عزیزنے ہم سے پوچھا کہ کیوں نہیں لکھتے ہم نے کہا کہ ڈر لگتا ہے کہنے لگے کہ ڈرنے کے لئے تو بہت سارے موجود ہیں۔ اور آپ میں اور ان میں کیا فرق ہے۔۔۔ لیکن اب انہیں کوئی بتائے کہ ہمیں ڈر ہے کہ خدانخواستہ ہم نے حق لکھ ہی دیا تو کہیں صرف طاقت ور حلقے ہی نہیں اہل حق بھی ناراض ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟؟؟

نہ ادھر کے نہ ادھر کے!!!

اب کوئی بھی شعبہ انسانی ہمدردی ،پاکیزگی ، ضمیر، انصاف سے عاری ہے بلکہ اب ایک خواب ہے ۔۔۔ ڈاکٹر سے لے کر نہ جانے کتنے ہی شعبہ ہائے زندگی ہیں جو صرف نوکری اور اور پرائیویٹ پریکٹس کے لئے ہی رہ گئے ہیں۔۔۔ صحافی بھی بس اس لیے لکھ رہے ہیں کیوں انہیں گھر کے اخراجات برداشت کر نے ہو تے ہیں۔۔۔

سچ نہ لکھنے کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ عدم برداشت ہے۔۔۔ ان سے کوئی پوچھے کہ سچ لکھا ہوا کب کسی کو برداشت ہوا ہے اور منصور سمیت نہ جانے کتنے سولی پر چڑھ گئے، اس لئے برداشت اور عدم برداشت کے چکرمیں  نہ پڑیں۔۔۔ لکھنے سے پہلے اپنے حصے کی سولی تیار سمجھیں ،یہ نہ کہیں کہ کلمہ حق ہمیشہ ظالم حکمران کی اجازت سے ادا کیا جائے گا!!!

-----------------------------------------

 سہیل انصاری کہنہ مشق صحافی ہیں، صحافت میں دہ دہائیوں سے زیادہ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس وقت ایک نجی نیوز ٹی وی چینل سے وابسہ ہیں اور فری لانس مضامین لکھتے ہیں جو مختلف رسائل و جرائد اور نیوز ویب سائٹس پر شایع ہوتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.