ہم کب تک ڈوبتے رہیں گے؟
تحریر: منصوراحمد
غلفت لاپروائی یا
قدرتی آفات۔۔سندھ بلوچستان پنجاب یا خیبرپختونخوا چاروں صوبوں میں چاروں طرف پانی ہی
پانی ۔۔
پیش گوئی کے باوجود
کسی صوبے نے سیلاب سے بچنے کی کوئی تیاری نہیں کی ۔۔۔ ریلوں نے جانی اور مالی نقصان
کیا، افسوس ناک واقعہ جو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا ،جس کو دیکھ کر ہرآنکھ اشک بار
ہوئی۔
کوہستان میں پانچ
بھائی پانچ گھنٹے تک موت سے اس امید پر جنگ کرتے رہے کہ شاید کہیں سے کوئی امداد آجائے
کوئی ہیلی کاپٹر
آجائے کوئی کشتی
آجائے لیکن بےسود۔۔۔۔موت پانچ بھائیوں کے سرپر پانچ گھنٹے تک منڈیلاتی رہی ۔۔۔اوروہ
پانچ بھائی اس
سے نظریں بچاتے
رہے منہ زور پانی کے ریلے پاوں کے نیچے زمین کھینچتے رہے اور پانچ بھائی ان پر قدم
جمانے کی
کوشش کرتے رہے
۔۔۔ایک امید تھی شاید کوئی آجائے شاید وہ ہیلی کاپٹرہی آجائے جس میں خان صاحب سیلابی
علاقوں کا
فضائی جائزہ لینے
کے لیے نکلے ہوئے ہیں لیکن سب ببے سود ، نہ کوئی مدد آئی نہ ہی کوئی ہیلی کاپٹر آیا
اور بےرحم
پانی کی موجیں پانچ
بھائیوں کو اپنے ساتھ بہا لےگئیں ۔
دیکھنے والے خدا
کو یاد کرنے لگے اپنی مدد آپ کے تحت ان پانچ بھائیوں کی مدد کی کوشش بھی لیکن زندگی
نے وفا نہ کی اور موت کی دیوی انہیں اپنے ساتھ لے گئی ۔ خوفناک دل دہلادینے والا منظر جس نے بھی دیکھا اس کی آنکھ اشک بار ہوئی لیکن ہمارے حکمرانوں کے سرپر جوں تک
نہ رینگی ۔
روایتی بے حسی کا
شاندار مظاہرہ کیا گیا شاید مرنے والے پانچ بھائی کوئی ایم پی اے یا ایم این اے نہیں
تھے۔۔شاید وہ ان کی کوئی بہن علمیہ خان نہیں تھی جس کو چترال تک لینے کے لیے ہیلی کاپٹر
پہنچ جاتا ہے، ہاں تھے وہ غریب بھائی جن کی کوئی شنوائی نہیں،جن کے آگے پیچھے کوئی
پروٹوکول نہیں ۔۔۔۔ملک غریب کی اوقات ہی کیا ۔۔۔اس پانچ منٹ کی ویڈیو نے واضح کردیا۔
غریب عوام صرف ووٹ
دینے کے لیے ہیں ،سیلاب میں ڈوب کر مرجائے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔پانچ بھائیوں
کی موت نے جہاں ملک میں سوگ کی فضا طاری کردی وہیں بلوچستان سندھ اور پنجاب میں ڈوبتےلوگوں
کی لاشیں ۔۔۔بچوں کی لاشیں ،خواتین کی لاشیں سب حکمرانوں سے سوال کرتیں ہیں ہمارا قصور
کیا تھا؟
کیا ہمارا قصور
اس ملک میں رہنا ہے، کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم ایسے حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں جن
کو اپنے سوا کوئی
نظر نہیں آتا ،بے
حسی اور بے غیرتی شاید الفاظ کم پڑجائیں لیکن ایسے وقت میں بھی حکمران اور ہمارے سیاستدان
صرف سیاست کررہےہیں۔
شہباز گل پر ہونے
والا تشدد میڈیا سمیت سب کو نظر آگیا لیکن ملک کے عوام پر لگنے والے جانی ومالی زخم
کسی کو نظر
نہیں آئے ،گل صاحب
کے جیل جانے تک ملک کے میڈیا کو سیلاب زدگان نظر نہ آئے ۔ان کے جیل جاتے ہی میڈیا کوسیلاب زدگان کی یاد ستانے لگی جب ان کو ضرورت تھی
اس وقت سیاستدان اپنا ووٹ پکا کرنے میں لگے ہوئے میڈیا ریٹنگ کے چکروں میں لگا ہوا
تھا اور اپوزیشن اپنے بندے کے زخم دیکھنے میں لگی ہوئی تھی ۔
جائیں تو جائیں
کہاں اس ملک کے عوام ۔۔۔کس سے شکایت کریں کس سے فریاد کریں ۔۔۔ملک میں جاری سیلاب نے
وہ تباہی مچائی کے بلند وبالا عمارتیں بھی اپنے ساتھ بہالے گیا ،،،پھر ان پانچ بھائیوں
اور ان لاتعداد بچوں جوانوں اور عورتوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔۔۔ٹھیک ہے یہ قدرتی
آفات ہیں لیکن عوام کو ریلیف پہنچانا کس کا کام ہے؟ جن کا کام ہے وہ اپنی فصلیں بچانے
کے لیے بند توڑدیتے ہیں پانی غریبوں کےعلاقوں میں چھوڑ دیتے ہیں ،غریبوں کو ڈبو دیتے
ہیں ،اس کے بعد پچاس پچاس روپے تقسیم کرکے تالیاں بھی بجواتے ہیں ،غریبوں کی غربت کا
مذاق اڑتے ہیں ۔
تھوڑی امداد کردو
۔۔کچھ تصویریں اورویڈیو بنوالو بس کام ہوگیا کبھی یہ نہیں سوچا کہ قدرتی آفات سے بچاؤ
کی کوئی تدبیر کی جائے، کچھ ایسا کیا جائے کہ بارشوں کا پانی ہمارے لیے کارآمد ثابت
ہو ہماری تباہی کا باعث نہ بنے۔ کچھ عرصے بعد ملک کو سیلاب کی صورتحال کا سامنا کرناپڑتا
ہے لیکن اس سے بچاؤ کے لیے کسی حکومت نے کچھ نہیں کیا،بس سیلاب آتا ہے اپنے ساتھ تباہی
لاتا اور چلا جاتا ہے اس کے بعد امداد آجاتی ہے ملک بیرون ملک ہرجگہ سے امداد کی اپیلیں
کی جاتیں ہیں ۔
کراچی اس معاملے
میں ہمیشہ ہی آگے رہا تمام سیاسی جماعتیں امداد جمع کرکے متاثرین تک پہنچانے کی بات
کرتی ہیں اور اللہ اللہ خیر سلا۔۔۔۔ہم کب ایک ہونے کا ثبوت دیں گے کب کوشش کریں گے
کہ ہمیں امداد کی نہیں ایک قوم بننے کی ضرورت ہے آفات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے
کی ضرورت ہے۔۔۔لیکن کب یہ معلوم نہیں ۔۔۔باقی رہے نام اللہ کا
Post a Comment