جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ فنڈ آتا ہے

 

Flood in Sukkur, Sindh, Pakistan

تحریر:مفلحہ رحمان 

کچھ  ایسا ہی ہوا ہوگا جب چند دن قبل وفاقی حکومت غیرملکی دوروں پر تھی ۔۔۔سیر کرتے کرتے وزیراعظم جھیل کنارے گئے ہوں گے تو اچانک یاد آیا ہوگا کہ محکمہ موسمیات نے ساؤتھ ایشین فور میٹنگ کےبعد مئی میں انہیں پاکستان میں غیر معمولی بارشوں کی پیش گوئی کی تھی۔

 اسی فکر میں اگست کےآخر میں وزیراعظم پاکستان آئے تو ملک کا نقشہ ہی بدل چکاتھا۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے آس پاس پی ڈی ایم کے رہنماوں کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فضل الرحمان کی بیرونی دورے پر ہیں، وفاقی وزرا بھی عمران خان کے خلاف مہم میں مصروف ہیں تو انہوں نے خود ہی قوم سے خطاب اور ایک آدھ متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا۔ شہباز شریف دنیابھرسے امداد مانگ رہے ہیں مگرانہیں بڑے بھیا سے یہ کہنےکہ ہمت نہ ہوسکی کہ بھائی وہ جو ایون فیلڈ کے کروڑوں ڈالر ہیں ان میں سےچند ہزار ہی دے دیں۔۔ آخر ان لٹے پٹے عوام سے ووٹ بھی تو لینے جانا ہے۔

دوسری جانب سندھ کا رخ کریں تو سیلاب زدہ علاقوں کو دیکھ کر وینس یاد آگیا۔جی جناب یہ کہنا ہے سندھ کے وزیر منظوروسان کا جو سیلاب کےبعد سندھ کی حالت زار دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہونےکے بجائے اسے فرانس کے شہر وینس سے تعبیر کررہے ہیں۔

کیا وینس میں شہداد کوٹ کی طرح گھرکی دیوارگرنے کےتین دن بعد چار سال کی بچی حکومتی  امداد نہ ملنے پر مری تھی ؟ ستم در ستم بچی کو رات بھر کفن کا انتظار رہا، صبح اسے محلےوالوں کی مدد سے دفن کیا گیا تھا، کیا وینس میں بھی باپ اپنی بچی کی لاش کو کفن نہ ملنےپر پلاسٹک کی تھیلی میں لپیٹ کر قبرستان لےگیاتھا؟  

خواب دیکھنےوالی سرکار آخرایسے کیوں نہیں کہہ سکتی ، جن کےاپنے لیڈر یہ کہہ چکے ہوں کہ جب زیادہ بارش ہوتی تو زیادہ پانی آتا ہے۔۔ ظاہر ہے جب زیادہ پانی آتا ہے تو زیادہ  غیر ملکی فنڈ بھی ملتا ہے۔۔ سندھ کے وزیروں کا حال  یہ ہے کہ سائیں سرکار سیلاب زدگان کی بحالی کا کام شروع کرنےسے پہلے ہی بیرونی امداد کی راہ تکنا شروع ہوجاتی ہے اورپھر سندھ کے ایک وزیر پانی میں پھنسے سیلاب زدگان کو پچاس پچاس روپے دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار گئے۔۔

کسی وزیر کو سیلاب زدگان کی زندگی کے مسائل دیکھ کر شدید پیاس لگی کہ ٹن پیک کولڈ رنک پی لی  اور بےچاروں کو تکلیف کا احساس ہواتو منرل واٹر سے پیر بھی دھو ڈالے۔

خدارا خوف کریں ، پانی میں تیرتی لاشیں، خالی دیگچی میں ہاتھ چلاتی بچی ، گردن تک آتے پانی میں چلا چلا کر اذان دیتا بچہ بھی آپ  کی فرعونیت کا بت نہ توڑ سکا ۔ ان سیلاب زدگان کےساتھ فوٹو سیشن ، سوشل میڈیا مہم  کےبجائے حقیقت میں کچھ کرلیں۔ تھوڑا پٹرول کا خرچہ ، بیرونی دورے ، حج عمرے کا کوٹہ ، گھریلو خدمتگاروں کی تعداد کم کر لیں ورنہ بارش ، زلزلے ، سیلاب اور اجل کے فرشتےحسب نسب، امیرغریب میں فرق نہیں جانتے۔


کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.