فضا گرم کرنے کی کوشش

خیراللہ عزیز 



 ہمارے شکوے پر دوست ناراض ہوجاتے ہیں آج عدالت نے سوال اٹھادیا تو   جیو نیوز کے مطابق جے یو آئی کے وکیل  بیرسٹر کامران مرتضیٰ نے اعتراف کرلیا کہ قانون کاعلم نہ ہونا ہماری نا اہلی ہے۔ ہمارا شکوہ یا اعتراض تو اب بھی یہی ہے کہ حکومت  میں شامل اہم اتحادی کو چاہیئے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرے اسے عدالت جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟  وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف جمعیت علماء اسلام کی درخواست پر سماعت کے دوران  قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور نے ریمارکس دیے کہ کیا جے یو آئی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ جائزہ لیکر قانون بناتے؟ جب قانون منظور کیا تو عدالت کیا لینے آے ہیں؟ پانچ سال بعد جے یو آئی کو ٹرانس جینڈر بل میں خامیاں یاد آئیں۔

 

اصل میں جے یو آئی کو یہ خامیاں اب بھی نظر نہ آتیں اگر سینیٹر مشتاق احمد خان  اس قانون کے خلاف بھرپور مہم نہ چلاتے، ایوان میں واحد سینیٹر ہیں جنہوں نے اس  قانون کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا، انہوں نے مختلف مسالک کے علماء، ماہرین قانون، صحافیوں،  اساتذہ اور سیاسی کارکنوں  سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے رابطے کیے اور اس بل کے خلاف کھڑے ہونے کی درخواست کی۔ مشتاق احمد خان نے  ماہرین قانون کی مدد سے ترامیم تیار کیں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں پیش کیں۔  اس وقت بھی  علما ء کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے رہنما خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے۔  ان ترامیم پر جب پہلی بار بحث ہورہی تھی تو اس اجلاس میں سینیٹر مولانا عطاء الرحمان صاحب شرکت کے لیے  آئے ضرور لیکن بحث شروع ہونے سے  پہلے اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔

 

ہم یہ نہیں کہتے  کہ خدانخواستہ جے یو آئی نے اس قانون کے حق میں ووٹ دیا یا اس کی حمایت کی۔  نہ ہی  قیادت  بے خبر تھی کیونکہ  پانچ سال پہلے ن لیگ کے دور حکومت میں  جب یہ بل ایوان میں پیش ہوا تھا تو جمعیت علما ء اسلام کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور صاحبہ نے  کھل کر اس کے خلاف تقریر کی۔ لیکن  جس خدشے کا اظہار نعیمہ کشور صاحبہ کررہی تھیں پارٹی قیادت کو اس کا ادراک نہیں تھا یا  وہ الیکشن کی تیاری میں مصروف تھی۔ 


اب جب حکومت نے تسلیم کرلیا کہ سینیٹر مشتاق احمد خان کی ترامیم انتہائی مناسب ہیں اور اس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے تو  جمعیت علماء اسلام  نے بھی شرعی عدالت سے رجوع کرلیا جہاں پہلے ہی ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف مختلف درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں ۔دوران سماعتقائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے استفسار کیاکہ آپ کی درخواست میں نیا کیا ہے؟ تو وکیل کامران مرتضی نے کہاکہ اپنی جماعت کی نمائندگی چاہتے ہیں۔ چار سالوں میں قانون کا علم نہ ہونا ہماری نااہلی ہے تاہم اب جنس تبدیلی کے اختیار کی شق چیلنج کی ہے۔چیف جسٹس شریعت کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ  جس شق کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غلط ہے، لگتا ہے آپ نے قانون پڑھا ہی نہیں، کیا یہ جے یو آئی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ جائزہ لیکر قانون بناتے؟ 5 سال بعد جے یو آئی کو ٹرانس جینڈر بل میں خامیاں یاد آئیں۔ عدالت آنے کے بجائے پارلیمان میں بولنا چاہیئے تھا۔ (رپورٹ جیو نیوز)وفاقی شریعت عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف جے یو آئی کی درخواست دیگر درخواستوں کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے سماعت اٹھارہ  اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

 

ٹرانس جینڈرکا متنازع قانون تحریک انصاف، ن لیگ اورپیپلزپارٹی نے مل کر پاس کیا ہے ، ان سے یہی توقع کی جاسکتی ہے لیکن علماء کی جماعت  سے ہمیں  بڑی توقعات ہیں  ان پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایسے قوانین  کا راستہ روکنے کے لیے  علماء کو ہی کردار اداکرنے پڑے گا۔ ہمارا سوال اب بھی یہی ہے کہ بیساکھیوں پر قائم حکومت میں شامل اہم اتحادی جے یو آئی   اپنے اتحادیوں کو مجبور کیوں نہیں کررہی ؟  اگر پیپلزپارٹی کے قمر زمان کائرہ نے سینیٹر مشتاق احمد کی ترامیم کی حمایت کی ہے تو جے یو آئی ان ترامیم کی حمایت کیوں نہیں کرتی؟ جے یو آئی کی حمایت کے بغیرحکومت ایک دن نہیں چل سکتی۔ اب  اپنی ترامیم لانا یا عدالت جانا اپنی نا اہلی اور  غفلت چھپانے کے مترادف ہے، اب  جے یو آئی   کی قیادت  ٹرانس جینڈر قانون  پر سیاست  کرنے  اور اپنے اندھے مقلدین کی آنکھوں دھول جھونکنے کے بجائے سنجیدگی سے  اس قانون میں  ترامیم کی کوشش کرے۔   جس طرح جے یو آئی کے وکیل نے عدالت میں اعتراف کرلیا کہ یہ ہماری نا اہلی ہے کہ ہمیں قانون کا علم نہیں  تھا  بالکل اسی طرح جمعیت علماء اسلام کے قائدین بھی اعتراف کرلیں   اور اس قانون  کے بارے میں آگہی دینے  اور ترامیم لانے والے کے ہاتھ مضبوط کریں۔   

 

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.