کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں


تحریر: حسیب عماد صدیقی

کراچی میں بلدیاتی الیکشن ایک بار پھر ملتوی، پیپلز پارٹی کو شکست کا خوف، بہانے بازی، رسہ گیری،لوٹ مار پر پابندی کا خوف، چند ہزار جاگیردار اور ان کے حواری سندھ کے چھ کروڑ عوام کے وسائل پر قابض۔

 

شاید ایسا بدترین نظام دور افتادہ افریقی ممالک میں بھی نہیں ہوگا۔  اس روئے زمین کی سب سے کرپٹ حکومت لیکن 15سال سے قابض،  الیکشن انجینئرنگ کے ماہر،پیسہ،تعصب،کرپشن، بدترین جاگیرداری، اقربا پروری اور پولیس گردی کے ذریعے پورے نظام کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ کیا ظالم جاگیرداروں پر مشتمل یہ ٹولہ اسی طرح پورے نظام کو مفلوج کر کے سندھ پر قابض رہے گا ؟  اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرتا رہے گا ؟ کیا کراچی کو ان کے رحم و کرم پر مزیدچھوڑا جا سکتا ہے ؟ بلاول کو امریکا بھیج کر امریکی اسٹیبلشمنٹ کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ہم آپ کی ہر خدمت بجا لائیں گے۔ پاکستان کی ڈائریکشن چینج کر دیں گے، اس کا اسلامی تشخص تبدیل کر کے سیکولر ملک بنا دیں گے۔ آپ ہمیں وزیراعظم بنا دیں۔ شہباز شریف اور پی ڈی ایم سے یقین دہانی لی گئی ہےکہ بلاول کو آئندہ وزیراعظم بننے میں مدد کریں۔ لیکن اس سب کے باوجود اس ساری صورتحال کے ذمہ دار ہم خود ہیں، عوام ہے جو یہ ظلم سہ رہے ہیں کیا ہم چند ہزار جاگیرداروں کے غلام ہیں ؟

 

ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ اسمارٹ ہیں جبھی تو وہ ہم پر حکمران ہیں۔ وہ نہایت چالاکی سے ہر صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں ۔ جنگل کا قانون ہے کہ صرف وہ زندہ رہے گاجو سب سے زیادہ فٹ ہے ۔ وہ اپنی حکمتِ عملی وقت کے ساتھ تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔کبھی ن لیگ، اے این پی اور  مولانا فضل الرحمان سے اتحاد،کبھی ایم کیو ایم کو دانہ کبھی جھٹکا، کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف  اور کبھی ان کی گود میں،ان کے پاس ایک سو ایک طریقے ہیں اور ہم ہیں کہ صرف سوشل میڈیا پر لگے ہوئے ہیں۔ مذمت اور ہائے لٹ گئے کی گردان، فلاں ظالم ہے، فلاں نے ہمارا حق کھالیا، فلاں نے لوٹ لیا۔کیا اس کے علاوہ بھی ہم کچھ کر سکتے ہیں؟

 

جی ہاں ! حافظ نعیم الرحمن صاحب کال دے دے کر تھک گئے لیکن لوگ اس تعداد میں باہر نہیں نکلے۔ اب عمل کی ضرورت ہے۔گھر میں بیٹھ کرسوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے اچھل کودکر کے حکومت تبدیل ہو سکتی تو ہو چکی ہوتی۔ اس کھلی کراچی دشمنی کے خلاف عوام صرف تین۔چار لاکھ کی تعداد میں حافظ نعیم الرحمن صاحب کے پیچھے نکلیں۔شاہراہ فیصل ، آئی آئی چندریگر روڈ اور سہراب گوٹھ پر دھرنا دے دیں تو صرف چند دنوں میں حکومت گھٹنے ٹیک دے گی  اور  انتخابات پر راضی ہو جائے گی ۔ کسی اور کو کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں،  انہیں صرف یہاں کے وسائل کی لوٹ مار کرنی ہے۔

 

 ایم کیو ایم کے لیڈرز کی کراچی سے دلچسپی صرف کچھ نشستیں حاصل کر کے اپنی بارگیننگ پوزیشن بہتر بنانے، اپنے کیسز نمٹانے اور اپنی جان بچانے کی حد تک ہے۔ کیا عمران خان نے کبھی کراچی کے حقوق کے حوالے سے کوئی دلچسپی دکھائی؟بار بار بلدیاتی الیکشن کے التوا پر کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا ۔  وہ کراچی کے مینڈیٹ کو گرانٹڈ لیتے ہیں۔صرف ان کی تیسرے درجے کی قیادت نے چند بیانات اور کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے ۔کیا عمران اسماعیل اور علی زیدی جیسے بسیار خور اور آرام پسند،فیصل واوڈا جیسے شیخی بازاپنا عیش و آرام چھوڑ کر کراچی کے عوام کے لیے ڈنڈے کھانے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ جب انہیں بغیر کسی پرفارمنس کےاور چند جذباتی نعرے لگانے سے ووٹ مل رہا ہے تو انہیں اس مصیبت میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔  خان صاحب کئی ماہ سے لانگ مارچ اور دھرنے کی گولی دے رہے ہیں ،وہ اسلام آباد چھوڑیں،کراچی کی چند شاہراہوں پر دھرنا دے دیں، خان صاحب کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور کراچی والوں کا بھی۔  رہی اسٹیبلشمنٹ ،ن لیگ اور فضل الرحمان تو انہیں کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کراچی کے عوام کے حقوق کی قربانی اور انہیں پیپلز پارٹی کے حوالے کر کےانہیں کوئی سہولت ملتی ہے تو یہ بہت سستا سودا ہے۔اگر کراچی کے لئے کوئی حقیقی اور مخلص آواز ہے تو وہ حافظ نعیم الرحمن ہیں ، جماعت اسلامی ہے لیکن جب تک عوام سوشل میڈیا سے نکل کر سڑکوں پر بڑی تعداد میں نہیں آئیں گے تو وہ یوں ہی پستے رہیں گے۔ اپنے حقوق کی جنگ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر لڑنی پڑتی ہے۔

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں

کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.