سندھ سرکار کی دوغلی پالیسی

تحریر: خیراللہ عزیز

کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن سے متعلق  پیپلزپارٹی کی بدنیتی کھل کر سامنے آگئی۔ کراچی میں پولنگ اسٹیشنز کے لیے اہلکار نہیں  لیکن اسلام آباد میں عمران خان کا لانگ مارچ روکنے کے لیے چھ ہزار کی نفری بھیج دی گئی۔   بلاول بھٹو زرداری اور صوبائی قیادت  نے  الیکشن کمیشن کو سیکیورٹی دینے سے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کی تھی کہ سندھ پولیس کے جوان سیلاب زدہ علاقوں میں مصروف ہیں  اس صورتحال میں پولنگ اسٹیشنز پر تعیناتی کے لیے اہلکار دستیاب نہیں۔

 

 یہ چھ اکتوبر کا دن تھا جب بلاول بھٹو نے   دوٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا کہ صوبائی حکومت سیکیورٹی نہیں دے سکتی مگر اگلے ہی روز  حکومت سندھ  ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار اسلام آباد بھیجنے کا حکم نامہ تیار کرتی ہے وہ بھی انتہائی خاموشی سے۔   ان اہلکاروں میں رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے 900 ریکروٹس اور ایک سو پچیس ٹرینرز کی کی مکمل تفصیل درج ہے  ۔  پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین  اور وفاقی حکومت میں وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز بلاول بھٹو زرداری نے تو نام لیے بغیر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کو مخاطب کرتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں کہا کہ ہم ناظم آباد کے پولنگ اسٹیشن کے لیے افسر نہیں دے سکتے لیکن اگلے ہی دن حکم نامے میں اسلام آباد بھیجنے کے لیے ایک ایس ایس پی، چار انسپکٹرز، بیس سب انسپکٹرز اور سو ہیڈکانسٹیبلز کی تفصیل درج تھی۔  صوبائی حکومت نے محکمہ پولیس کو یہ معاملہ چھپانے کی اتنی سخت ہدایت کی تھی کہ جس روز پولیس اہلکار اسلام آباد روانہ ہوئے اس روز  بھی کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے اپنے رینج کے اہلکاروں کو اسلام آباد بھیجنے کی تردید کی تھی۔   یہ تو رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے اہلکاروں کی تفصیل ہے مجموعی طور پر سندھ سے چھ ہزار پولیس اہلکار لانگ مارچ روکنے کے لیے اسلام آباد بھیجے گئے ہیں۔ یہ دہرا معیار نہیں بلکہ کھلی منافقت اور بد نیتی ہے۔

 

   اپنے الیکشن کے لیے سیکیورٹی نہیں اسلام آباد کے لیے چھ ہزار اہلکار کیسے بھیجے گئے جب یہ سوال صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن سے  پوچھاگیا تو موصوف نے جواب دیا کہ اسلام آباد کو خطرہ ہو تو انکار نہیں کرسکتے تھے ۔  بہت اچھی بات ہے آپ کو اسلام آباد کی سیکیورٹی کی اتنی فکر ہے لیکن کیا کراچی میں ڈھائی کروڑ سے زائد جانور بستے ہیں؟ حکومت سندھ کو تو کبھی ان کا خیال نہیں آیا، یہاں روز ڈاکے ہوتے ہیں، دن دہاڑے سڑکوں پر گولیاں چلتی ہیں لوگ مارے جاتے ہیں ان کے تحفظ کی آپ کو کوئی فکر نہیں۔  پیپلزپارٹی کے رہنما بشمول آصف زرداری کے جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتےلیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کوتیار نہیں، اختیارات عوام کو منتقل کرنے کو تیار نہیں  اور اس کی وجہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں ، وہ شکست سے خوفزدہ ہے ۔  اور وہ خوفزدہ کیوں نہیں ہوں گے چودہ سال تک سندھ میں بلا شرکت غیرے وہ اقتدار میں ہیں لیکن کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا  امن وامان کا مسئلہ ہو یا انفرا اسٹرکچر کا پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے ، اب سڑکوں پر لیپاپوتی کرنے سے لوگ انہیں ووٹ نہیں دیں گے ۔  اس لیے کبھی بارشوں کابہانہ توکبھی سیلاب کوجواز بناکرتین بار انتخابات ملتوی کراچکی ہے۔ اس جرم میں ایم کیو ایم بھی برابر کی شریک ہے  جو چونتیس سال سے ہر حکومت کے ساتھ شریک اقتدار رہی ہے لیکن کوٹہ سسٹم کا خاتمہ تک نہ کراسکی۔    دیکھتے ہیں پیپلزپارٹی کی قیادت کب تک بلدیاتی انتخابات مؤخرکراتی رہتی ہے ، آج نہیں تو کل  انتخابات  کرانے ہوں گے اور پھر کراچی کے عوام کے پاس چودہ سال کی محرومیوں کااانتقام لینے کا موقع ہوگا۔


خیراللہ عزیزکے دیگرکالم پڑھنے کےلیے ذیل میں لنک پر کلک کریں۔

پرائی ٹیم کا کپتان

شکریہ ریلو کٹے


 خیراللہ عزیز سینئر صحافی ہیں۔ ایک پشتو زبان کے ٹی وی چینل لانچ کرچکے ہیں۔ اس وقت وہ ایک اردو نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحاریر دیگر ویب سائٹس اور جرائد میں بھی شایع ہوتی ہیں۔خیراللہ عزیز سے ٹوئیٹر  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.